یہ روز و شب گزرتے لگ رہے ہیں
یہ روز و شب گزرتے لگ رہے ہیں
مگر لمحے ٹھہرتے لگ رہے ہیں
نہ جانے کب سے لاشیں سڑ رہی ہیں
پرندے گشت کرتے لگ رہے ہیں
میں خود سے دور ہوتا جا رہا ہوں
پرانے زخم بھرتے لگ رہے ہیں
یہ بازاروں میں مہنگائی کا عالم
سبھی چہرے اترتے لگ رہے ہیں
کبھی پہلے نہ تھے ایسے مگر اب
سبھی موسم مکرتے لگ رہے ہیں
ہوا طوفان لے کر آ رہی ہے
شجر فریاد کرتے لگ رہے ہیں
جہاں سے راستہ جاتا ہے گھر کا
وہیں پر ہم ٹھہرتے لگ رہے ہیں
یہ موسم کون سا آیا ہے جس میں
ہرے پتے بکھرتے لگ رہے ہیں
بہت مشکل ہے سچ کا ساتھ دینا
ہمیں سے ہم مکرتے لگ رہے ہیں
غضب کی روشنی ہے میرے اندر
کئی سورج اترتے لگ رہے ہیں
عجب عالم ہے اب دیوانگی کا
در و دیوار ڈرتے لگ رہے ہیں
مری خاموش تنہائی کے لمحیں
بہت آواز کرتے لگ رہے ہیں
سنوارا ہے غزل کو ہم نے ساجدؔ
غزل سے ہم سنورتے لگ رہے ہیں
- کتاب : Word File Mail By Salim Saleem
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.