یہ صدی رنج و مصائب کی صدی لگتی ہے
یہ صدی رنج و مصائب کی صدی لگتی ہے
زندگی بھی مجھے زخموں کی گلی لگتی ہے
جھوٹ سننے کا ہر اک شخص ہوا ہے عادی
ہو جو میٹھی بھی تو سچائی بری لگتی ہے
یہ ضروری نہیں انسان کو مل ہی جائے
ایسی ہر چیز جو آنکھوں کو بھلی لگتی ہے
خط میں تحریر مجھے ملتے ہیں اس کے آنسو
لفظ چھوتا ہوں تو آنکھوں میں نمی لگتی ہے
میرے پرکھوں کی بھی مٹی ہے اسی مٹی میں
اس لیے خاک وطن مجھ کو بھلی لگتی ہے
غسل کرتے ہوئے محبوب سا لگتا ہے یہ چاند
چاندنی رات ستاروں کی ندی لگتی ہے
ہم نے دیکھے ہیں فسادوں میں وہ منظر بھی انیسؔ
اپنے ہی خون میں ہر چیز سنی لگتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.