یہ سیل اشک مجھے گفتگو کی تاب تو دے
یہ سیل اشک مجھے گفتگو کی تاب تو دے
جو یہ کہوں کہ وفا کا مری حساب تو دے
بھری بہار رتوں میں بھی خار لے آئی
یہ انتظار کی ٹہنی کبھی گلاب تو دے
نہیں نہیں میں وفا سے کنارہ کش تو نہیں
وہ دے رہا ہے مجھے ہجر کا عذاب تو دے
یہ خامشی تو قیامت کی جان لیوا ہے
وہ دل دکھائے مگر بات کا جواب تو دے
ہر ایک واقعہ تاریخ دار لکھ جاؤں
گئے دنوں کی مرے ہاتھ وہ کتاب تو دے
یہ دیکھ کس گل تر پر نگاہ ٹھہری ہے
نہ دے وہ پھول مجھے داد انتخاب تو دے
گناہ گار سہی پھر بھی میرے حصے کا
تری طرف جو نکلتا ہے وہ ثواب تو دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.