یہ شب فرقت میں رنگ گردش ایام تھا
یہ شب فرقت میں رنگ گردش ایام تھا
صبح کا تارا جسے سمجھا چراغ شام تھا
ہم سنا کرتے تھے اکثر گرمیٔ محشر کا نام
اب جو دیکھا اک ستم گر آفتاب بام تھا
امتیاز عشق تھا پھر کیسے لا سکتا تھا تاب
حشر بس اس پر بپا تھا اس کا جلوہ عام تھا
عشق پر لازم تھا خود فرہاد کا سر توڑنا
پختگی کا اس کو دعویٰ اس کو سودا خام تھا
آپ تو مختار تھے جو دل نے چاہا وہ کیا
اور پھر الٹا مجھی پر حشر میں الزام تھا
مست ساقی کی نظر کی جنبشوں کو کیا کہوں
یعنی بے پردہ جواب گردش ایام تھا
میں نشیمن میں رہا صیاد کا یوں بھی اسیر
دل میں تھا میرے قفس آنکھوں میں میری دام تھا
نامہ بر کو جان دے دی اضطراب شوق میں
بس یہی نامہ مرا تھا بس یہی پیغام تھا
امتحان عشق اس نے کیوں لیا اے اہل عشق
پختہ کاروں کی طرف سے کیا خیال خام تھا
مجھ کو جب سے ہوش ہے لاکھوں طرح کے غم میں ہوں
ہوش میں جب تک نہ تھا مجھ کو بہت آرام تھا
کیا وفاؔ کی سرگزشت غم کہوں یادش بخیر
مر رہا تھا اور لب پر آپ ہی کا نام تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.