یہ سلسلۂ شوخیٔ جانانہ نیا ہے
یہ سلسلۂ شوخیٔ جانانہ نیا ہے
ارشاد ہوا ہے کہ یہ دیوانہ نیا ہے
مطلب تو ہے اس سے کہ ہے مے کتنی پرانی
اس سے ہمیں کیا کام کہ پیمانہ نیا ہے
آئینۂ تجدید ہے تاریخ محبت
جس دور میں بھی سنئے یہ افسانہ نیا ہے
کس دھوکے میں ہو تم اسے کیوں چھیڑ رہے ہو
زنجیر پرانی سہی دیوانہ نیا ہے
آتا ہے بہت دیر میں لغزش کا سلیقہ
ساقی سے ابھی شیخ کا یارانہ نیا ہے
اے شمع تری سوزش دیرینہ کی ہو خیر
کچھ آج مذاق غم پروانہ نیا ہے
اک عمر کے بعد اب ہوا اندازۂ وحشت
جب اس نے کہا میرا یہ دیوانہ نیا ہے
یہ دیکھ کے رندان کہن بیٹھے ہوئے ہیں
غم کیا ہے جو ساقی ترا مے خانہ نیا ہے
اب دل کی جگہ پھول چڑھاتے ہیں بتوں پر
اس دور میں دستور صنم خانہ نیا ہے
دامان تبسم میں ہوا جذب ہر آنسو
اب عالم لطف غم جانانہ نیا ہے
کرتے ہیں سلام اور بڑے انداز سے جوہرؔ
یاروں کا مرے طرز حریفانہ نیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.