یہ سلسلہ غموں کا نہ جانے کہاں سے ہے
یہ سلسلہ غموں کا نہ جانے کہاں سے ہے
اہل زمیں کو شکوہ مگر آسماں سے ہے
یادوں کی رہ گزار سے خوابوں کے شہر تک
اک سلسلہ ضرور ہے لیکن کہاں سے ہے
میری کتاب زیست کو ایسے نہ پھینکیے
روشن کسی کا نام اسی داستاں سے ہے
منزل نہ پائی میں نے مگر یہ تو کھل گیا
رشتہ مرے سفر کا کسی کارواں سے ہے
موسم کی ہیر پھیر نے ثابت یہ کر دیا
کچھ میرے جسم کا بھی تعلق مکاں سے ہے
کہنے کو لوگ کیا نہیں کہتے شکیلؔ کو
سننے کا اشتیاق تمہاری زباں سے ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.