یہ سرمئی آفاق یہ شمعوں کے دھندلکے
یہ سرمئی آفاق یہ شمعوں کے دھندلکے
آ جاؤ بھی یادوں کے جھروکوں سے نکل کے
دیوانے چلے آتے ہیں صحرا سے نکل کے
رکھ دیں نہ کہیں نظم گلستاں ہی بدل کے
پھولوں کی طرح ان کی حفاظت ہے ضروری
یہ آج کے بچے ہی بڑے ہوتے ہیں کل کے
ہے جب تو تحمل کہ کوئی آہ نہ نکلے
اک اشک کا قطرہ مری پلکوں سے نہ ڈھلکے
دو روٹیاں عزت سے جو مل جائیں تو بس ہے
دروازے پہ لے جائے نہ وقت اہل دول کے
جائیں تو کہاں جائیں ترے چاہنے والے
حالات کے تپتے ہوئے صحرا سے نکل کے
ہم دست درازی کے تو قائل نہیں ساقی
حصے میں ہمارے بھی اگر مے ہو تو چھلکے
فن کار کی منہ بولتی تصویر ہے فن بھی
تم کیا ہو بتا دیتے ہیں اشعار غزل کے
کافی ہے ہمارے لیے مٹی کے گھروندے
ہم خاک بسر اہل نہیں تاجؔ محل کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.