یہ طے ہوا ہے کہ قاتل کو بھی دعا دیجے
یہ طے ہوا ہے کہ قاتل کو بھی دعا دیجے
خود اپنا خون بہا پھر بھی خوں بہا دیجے
نیاز و ناز بجا ہیں مگر یہ شرط وصال
ہے سنگ راہ تعلق اسے ہٹا دیجے
سنا تھا ہم نے کہ منزل قریب آ پہنچی
کہاں ہیں آپ اگر ہو سکے صدا دیجے
سحر قریب سہی پھر بھی کچھ بعید نہیں
چراغ بجھنے لگے ہیں تو لو بڑھا دیجے
مہکتے زخموں کو انعام فصل گل کہیے
سلگ اٹھے جو چمن برق کو دعا دیجے
کچھ اس طرح ہے کہ گزرے ہیں جس قیامت سے
سمجھئے خواب اسے خواب کو بھلا دیجے
بدل گئے ہیں تقاضے سخن شناسی کے
ادھر عطا ہو ادھر داد برملا دیجے
یہ کیا ضرور کہ احساس کو زباں مل جائے
ہے حکم نغمہ سرائی تو گنگنا دیجے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.