یہ تمنا ہے کہ میں حرف وفا ہو جاؤں
یہ تمنا ہے کہ میں حرف وفا ہو جاؤں
میری باتیں رہیں بے شک میں فنا ہو جاؤں
میرے کردار سے اچھائی کی خوشبو آئے
ہر برائی کے لیے میں تو برا ہو جاؤں
سب کو بیدار کروں اوم کی آواز سے میں
وہ جو آتی ہے اذاں سے وہ صدا ہو جاؤں
جس میں تہذیبوں کے گل ساتھ کھلا کرتے تھے
پھر مرے ملک کی وہ آب و ہوا ہو جاؤں
وہ جو ہجرت کے سبب چھوڑ گئے ہیں گھر کو
انہی بچھڑے ہوئے اپنوں کا پتہ ہو جاؤں
اسی امید پہ دن کاٹ دیے ہیں میں نے
زندگی میں تری راتوں کا دیا ہو جاؤں
روٹھ کر پھر سے چھپوں گھر کے کسی کونے میں
اک کھلونے کے لئے سب سے خفا ہو جاؤں
جو مجھے چھوڑ کے جاتے ہیں وہ پنچھی سن لیں
کل نئی رت میں پھلوں سے نہ لدا ہو جاؤں
ریت کے گھر جو بناتے ہیں یہاں ساحل پر
انہی معصوم سے بچوں کی دعا ہو جاؤں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.