یہ وقت کا تقاضہ ہے کھل کر جواب دوں
یہ وقت کا تقاضہ ہے کھل کر جواب دوں
سب سانپ آستین کے پیروں سے داب دوں
مجھ کو چلا رہا ہے وہ اپنے حساب سے
اور یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کو حساب دوں
خوابوں میں کر رہا ہے بھلا کون یہ سوال
اٹھ کر میں سوچتا ہوں کہ کس کو جواب دوں
ہو کر میں تیرے ساتھ جب آزاد ہو گیا
دنیا کے ان سوالوں کا اب کیا جواب دوں
ہو جاؤں گر خدا میں جو اک روز کے لئے
جو لوگ دوغلے ہیں سبھی کو عذاب دوں
جو لوگ مر گئے ہیں زمانے میں جیتے جی
جینے کا ان کو کیوں نہ حسیں کوئی خواب دوں
مسعودؔ مے کدے سے میں جانے لگا تھا گھر
اتنے میں ساقیا نے کہا اور شراب دوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.