یہ وہ آزمائش سخت ہے کہ بڑے بڑے بھی نکل گئے
یہ انہیں پتنگوں کا ظرف ہے کہ پرائی آگ میں جل گئے
تری آستین کی کہکشاں جو نظر پڑی تو مچل گئے
جو تری خوشی کا نچوڑ تھے وہی اشک تاروں میں ڈھل گئے
ملے سرد آہوں میں اشک غم تو شرار و برق میں ڈھل گئے
یہ نہ جانے کیسے چراغ تھے کہ ہوا کے رخ پہ بھی جل گئے
کسی کسی پھول پر کسی شاخ پر کہیں اب ٹھہرتی نہیں نظر
مرے آشیانے کے ساتھ میں مرے حوصلے بھی تو جل گئے
مرے ولولوں کے مزاج بھی بہ لحاظ موسم وقت ہیں
کبھی سرد آہ میں جل گئے کبھی اشک بن کے پگھل گئے
یہ تو کام ہمت دل کا ہے تری راہ میں پس و پیش کیا
جو ٹھہر گئے وہ ٹھہر گئے جو نکل گئے وہ نکل گئے
بس اک آنچ سی نظر آئی تھی ہے یہ راز اب بھی ڈھکا ڈھکا
وہ تیرا حسین عتاب تھا کہ ہم اپنے تاؤ میں جل گئے
جو تراشے فکر نے آئنہ ترا عکس حسن نظر بنا
جنہیں تجھ سے کچھ بھی لگاؤ تھا وہ خیال شعر میں ڈھل گئے
اٹھا شور محفل ناز سے ہوئیں آب دیدہ مسرتیں
لیا کس نے نام سراجؔ کا کہ چراغ اشک کے جل گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.