یہ وہ یقیں ہے جو الجھے یقیں سے نکلا ہے
یہ وہ یقیں ہے جو الجھے یقیں سے نکلا ہے
ہماری ہاں کا یہ دھاگا نہیں سے نکلا ہے
یہ دل ہے سب سے بڑا بھیک مانگنے والا
پہ زندگی کا خزانہ یہیں سے نکلا ہے
ترے لیے جو یقیں دل میں آ گیا تھا مرے
وہ سانپ بن کے مری آستیں سے نکلا ہے
فلک کی چاہ میں جھوٹا یقیں ضروری ہے
یہ مان لو کہ ستارا زمیں سے نکلا ہے
جہاں میں ڈوب گیا اور ڈوبتا ہی گیا
سمندروں کا سمندر وہیں سے نکلا ہے
مجھے پناہ مرے دل نشیں نے دی ہے سدا
مرا مکان مرے ہی مکیں سے نکلا ہے
یہ خار عشق ہے اخترؔ مزہ ہی دیتا ہے
اگر چبھا تو کہاں یہ کہیں سے نکلا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.