یہ زمیں اچھی لگی یہ آسماں اچھا لگا
یہ زمیں اچھی لگی یہ آسماں اچھا لگا
ساتھ جب تک تم رہے سارا جہاں اچھا لگا
تھی ہواؤں میں مہک اس کے بدن کی ہر طرف
فصل گل اچھی لگی دور خزاں اچھا لگا
اس سے ملنے کی للک میں جی رہا ہوں آج تک
ورنہ بے مقصد سفر تنہا کہاں اچھا لگا
جو کہا اس نے سراسر جھوٹ تھا سچ ہے مگر
مطمئن میں تھا کہ انداز بیاں اچھا لگا
مختلف ملکوں سے قومیں آئیں آ کر بس گئیں
کچھ تو ہے ہی جو انہیں ہندوستاں اچھا لگا
شیخ مسجد میں برہمن دیر میں میں میکدے
صبح تک سب تھے وہاں جس کو جہاں اچھا لگا
دوستو سچ سچ بتانا خاک تو میں ہو گیا
کیا تمہیں گھر سے مرے اٹھتا دھواں اچھا لگا
دشمن جاں اس کو کہتا ہے تو کوئی بے وفا
جانے کیوں گلشنؔ مجھے وہ جان جاں اچھا لگا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.