یہ ضرورت عجیب لگتی ہے
یہ ضرورت عجیب لگتی ہے
مجھ کو عورت عجیب لگتی ہے
جب بھی بجھتے چراغ دیکھے ہیں
اپنی شہرت عجیب لگتی ہے
سرحدوں پر سروں کی فصلیں ہیں
یہ زراعت عجیب لگتی ہے
آگ مٹی ہوا لہو پانی
یہ عمارت عجیب لگتی ہے
میری آوارگی کو بوڑھوں کی
ہر نصیحت عجیب لگتی ہے
زندگی خواب ٹوٹنے تک ہے
یہ حقیقت عجیب لگتی ہے
تو نے مٹی کو دھڑکنیں دی ہیں
تیری رحمت عجیب لگتی ہے
ماں کی شفقت اگر نہ ہو طارقؔ
ساری دولت عجیب لگتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.