یوں بھی باقی ہیں ابھی جینے کے آثار مرے
یوں بھی باقی ہیں ابھی جینے کے آثار مرے
بستر مرگ سے اٹھے ہیں کئی یار مرے
موج ادراک سے سورج کی شعاعیں پھوٹیں
تو نظر آئے کچھ ان دیکھے سے کردار مرے
سینۂ شب میں مچلتا ہے اداسی کا بدن
ایک تصویر میں دکھتے ہیں یہ آزار مرے
خواب بازار میں لایا ہوں تجارت کے لئے
سوچ کر کرنا ذرا سودا خریدار مرے
ہر نظارے میں چھپا بیٹھا ہے من کا جوبن
کس طرح خود کو سنبھالے گا اے ہشیار مرے
اپنی آنکھوں میں تری پیاس لئے پھرتا ہوں
اک نظر میری طرف دیکھ اے دل دار مرے
مجھ کو صحرا میں ذرا خاک اڑانی ہے ابھی
اس لئے دیر سے آئیں گے پرستار مرے
پہلے مشکل سے سمندر میں سفینہ اترا
اور پھر چھوٹ گئی ہاتھ سے پتوار مرے
میں نے لفظوں سے بنا ہے وہ زمانہ یارو
غور کرنے پہ نظر آئیں گے اشعار مرے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.