یوں بھی نباہ ہم نے کیا زندگی کے ساتھ
یوں بھی نباہ ہم نے کیا زندگی کے ساتھ
اک اجنبی ہو جیسے کسی اجنبی کے ساتھ
اب کے بہار آئی تو اس دل کشی کے ساتھ
کانٹے بھی مسکرائے گلوں کی ہنسی کے ساتھ
ہر غم قبول ہم نے کیا ہے خوشی کے ساتھ
وابستہ یوں ہوئے ہیں تیری برہمی کے ساتھ
دل کو جلا کے گرم کیا ایسے بزم کو
جیسے کوئی چراغ جلے روشنی کے ساتھ
تجدید آؤ پھر کریں عہد وفا کی آج
آؤ قدم ملا کے چلیں دوستی کے ساتھ
اتنی تو ہے ہمیں بھی توقع سلوک کی
اک آدمی جو کرتا ہے اک آدمی کے ساتھ
میری نظر بھی جاتی ہے کچھ سرخیوں کی سمت
آتا ہے جب بھی نام کسی کا کسی کے ساتھ
سنتے ہیں میکشوں میں بڑی برہمی سی ہے
ساقی پلا رہا ہے مگر بے رخی کے ساتھ
کوئی شکن جبین سخاوت پہ آ نہ جائے
دامن کو میرے دیکھ نہ دریا دلی کے ساتھ
نالہ کناں ہیں لمحے قیام و سجود کے
پیکرؔ نماز پڑھ نہ سکے آگہی کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.