یوں بھی شب فراق سزا کاٹتے رہے
یوں بھی شب فراق سزا کاٹتے رہے
لکھ لکھ کے خط پہ ان کا پتہ کاٹتے رہے
اہل ہوس نے کاٹ لی سونے کی کھیتیاں
خوددار لوگ فصل انا کاٹتے رہے
جو جس کے تھا نصیب میں لے کر چلا گیا
قسطوں میں اپنے بھائی گلا کاٹتے رہے
جن کو پیام امن سے پرخاش تھی بہت
وہ پر کبوتروں کے سدا کاٹتے رہے
طوفاں کا زور کم ہوا لہریں بھی تھم گئیں
دریاؤں میں سفینے ہوا کاٹتے رہے
ہر گام پر تھا ماں کی دعاؤں کا آسرا
دشمن ہزار دست دعا کاٹتے رہے
ثروتؔ کسی مقام پہ کھائی نہیں شکست
رستہ سفر میں راہنما کاٹتے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.