یوں بھی تو ستایا ہے تری جلوہ گری نے
یوں بھی تو ستایا ہے تری جلوہ گری نے
آنکھیں نہ ملائیں مری بالغ نظری نے
منت کش پندار جنوں ہے دل پر خوں
ان کا بھی سہارا نہ لیا بے خبری نے
اے حسن دل آرا تری اک ایک ادا کو
پروان چڑھایا مری حیرت نگری نے
تھی مرحلۂ سخت وہ منزل کہ جہاں پر
تم کو بھی سنبھالا مری آشفتہ سری نے
تم خود ہی چلے آؤ گے شاید سر منزل
اک راہ نکالی ہے مری در بدری نے
اے خستگیٔ عشق چمن میں تو گزر کر
پھولوں کا بھی رکھا ہے بھرم جامہ دری نے
دن رات کئے ایک وہ طوفان اٹھایا
غنچوں کے لئے موج نسیم سحری نے
افسوس انہیں ذوق نظر ہی نے گرایا
پردے جو اٹھائے تھے مری دیدہ وری نے
چپ ہیں مہہ مریخ زمیں ہے متبسم
کھینچا ہے ذرا طول امید بشری نے
حیرت مجھے اس پر ہے شہابؔ سخن آرا
تاکا نہ تجھے وسوسۂ ناموری نے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.