یوں امتحان میرا لیتے رہے مسائل
یوں امتحان میرا لیتے رہے مسائل
اک ہاتھ پر تھا دریا اک ہاتھ پر تھا ساحل
سوکھی پڑیں ہیں آنکھیں ٹوٹا ہوا ہے دل بھی
کہتے ہیں عشق جس کو ہوتا بہت ہے مشکل
اس بادہ کش کو دیکھو مستی میں مست ہے یوں
ہے اپنے آپ ہی میں جیسے وہ ایک محفل
ہر نقش پا کو تیرے ہم چوم کر چلیں گے
اپنی محبتوں میں تو کر لے ہم کو شامل
تعلیم یافتہ ہے پھر بھی یہ چیرہ دستی
برتاؤ کر رہے ہیں جیسے کہ ہیں وہ جاہل
تو کیوں سمجھ رہا ہے خود کو کہ بے گنہ ہے
جس نے مٹائے سپنے ہوتا ہے وہ بھی قاتل
گزرا ہے سارا جیون لڑتے ہوئے جہاں سے
دنیا کے ہر چلن کا حاصل نہیں تھا قائل
ہو کر جدا وہ تجھ سے کچھ ایسا کھو گیا ہے
اب ڈھونڈتا ہے خود کو ہر میکدے میں حاصل
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.