یوں لگ رہا ہے جیسے گماں ٹوٹنے کو ہے
یوں لگ رہا ہے جیسے گماں ٹوٹنے کو ہے
یعنی حقیقتوں کا جہاں ٹوٹنے کو ہے
خواب و خیال و فکر کی رعنائیاں لیے
کاغذ پہ میرا حرف بیاں ٹوٹنے کو ہے
جب اس کے بعد دائمی اک گھر ہے منتظر
کیا غم جو عارضی سا مکاں ٹوٹنے کو ہے
جو فیصلہ ہوا ہے عدالت میں حق طرف
حیران عقل ہے یہ زباں ٹوٹنے کو ہے
پڑھ کر جدید شاعری یہ فائدہ ہوا
اسلوب اپنا اپنا بیاں ٹوٹنے کو ہے
دیکھو کنارے اپنے سنبھالے رہو میاں
جاری جو ہے یہ سیل رواں ٹوٹنے کو ہے
اب کون ہوگا اپنے نشانے کی زد پہ یاں
اب تیر کیا کریں گے کماں ٹوٹنے کو ہے
اب اس کو ایسے چھوڑنا اچھا نہیں میاں
کچھ ہو خیال پیر مغاں ٹوٹنے کو ہے
برداشت کی بھی کوئی تو حد ہوتی ہے عبیدؔ
اب اس سے آگے بند فغاں ٹوٹنے کو ہے
- کتاب : سخن دریا (Pg. 80)
- Author : عبید الرحمن
- مطبع : عرشیہ پبلی کیشن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.