یوں نفرتوں میں محبت کے سلسلے دیکھے
یوں نفرتوں میں محبت کے سلسلے دیکھے
جو توڑنے پہ نہ ٹوٹے وہ آئنے دیکھے
پڑے گا فرق بھی کیا ان کے دور جانے سے
قریب رہ کے بھی ہم نے تو فاصلے دیکھے
ہوا جو ہم پہ عیاں خود نشان منزل کا
تو رقص کرتے ہوئے رہ میں زلزلے دیکھے
خمار ان کا ابھی تک ہے میری آنکھوں میں
جو میں نے خواب کی صورت میں رتجگے دیکھے
زمین پر ہی نہیں سلسلہ جدائی کا
ستارے ہم نے فلک کے بھی ٹوٹتے دیکھے
رہے وہ اشک بہاتے جو میرے اپنے تھے
لحد میں ساتھ جو اترے وہ دوسرے دیکھے
زمیں پہ آگ لگا دی پلک جھپکنے میں
فلک سے ٹوٹتے بجلی کے زاویے دیکھے
ہمیشہ عظمت انساں کے ہم رہے قائل
نہ عہدے دیکھے کبھی اور نہ مرتبے دیکھے
نشاط و غم کے کئی زندگی میں موڑ آئے
تو تلخ و شیریں سبھی ہم نے ذائقے دیکھے
اڑا رہا تھا وہ جیسے مذاق خود اپنا
خوشی کی بزم میں مفلس کے قہقہے دیکھے
سبب ہیں اپنی تباہی کا ایٹمی ہتھیار
ہوا میں آدمی کے اڑتے پرخچے دیکھے
ہو شاعری سے جسے عشق اس پہ لازم ہے
مری غزل کو پڑھے اور قافیے دیکھے
ہمیشہ ہنستا ہوا دشمنوں سے پیش آیا
بلند تر تھے جو سائرؔ کے حوصلے دیکھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.