یوں پابند سلاسل ہو کر کون پھرے بازاروں میں
یوں پابند سلاسل ہو کر کون پھرے بازاروں میں
خود ہی قید نہ ہو جائیں کیوں اپنی ہی دیواروں میں
رات کے لمحوں کی سنگینی دل کو ڈستی رہتی ہے
جسم سلگتا رہتا ہے تنہائی کے انگاروں میں
روشنیوں کے شہر اندھیروں کے جادو میں ڈوب گئے
بجھنے لگی ہو نور کی مشعل جیسے چاند ستاروں میں
درد کے تپتے صحرا میں اک آبلہ پا سر گرداں ہے
تم کو کیا تم جشن مناؤ خوشیوں کے گہواروں میں
میں کوئی سقراط نہ تھا جو زہر کا پیالہ پی جاتا
میں خود کیسے ڈوب سکوں گا اپنے لہو کی دھاروں میں
شہر کی راہیں رقص کناں ہیں رنگ فضا میں بکھرا ہے
کتنے چہرے سجے ہوئے ہیں ان چمکیلی کاروں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.