یوں پو پھٹی کہ صبح کی توقیر گھٹ گئی
یوں پو پھٹی کہ صبح کی توقیر گھٹ گئی
سورج چڑھا تو دھوپ اندھیروں میں بٹ گئی
ہر شام یوں لگا کہ قیامت کا دن ڈھلا
ہر صبح یوں لگا کہ صدی ایک کٹ گئی
سائے میں آیا میں تو عجب واقعہ ہوا
سائے کا ساتھ چھوڑ کے دیوار ہٹ گئی
میں دب گیا تو پیس کے سرمہ بنا دیا
اٹھا تو اپنے خول میں دنیا سمٹ گئی
شہر نوا پہ پڑ گئی افتاد کیا عجب
سناٹے بولنے لگے آواز پھٹ گئی
اتنا مچایا شور بتوں نے درون سنگ
پتھر کی میٹھی نیند بھی آخر اچٹ گئی
حالانکہ دیکھنا ہے مرا اور بات اور
وہ آنکھ سب کے ساتھ مجھے بھی ڈپٹ گئی
آخر کو رنگ لائیں مری خاکساریاں
اس کی گلی کی گرد بھی مجھ سے لپٹ گئی
گردن پہ جس کی کتنی پتنگوں کا خون تھا
مدت ہوئی پتنگ ہماری وہ کٹ گئی
پھرتا ہے آفتاب لئے کاسۂ گدائی
تھی جتنی دھوپ چاند ستاروں میں بٹ گئی
محفوظ جس میں تھی تری دزدیدہ اک نظر
بازار زندگی میں وہی جیب کٹ گئی
اس بھک مری میں اس کو غنیمت ہی جانئے
یاروں کی جوتیوں میں اگر دال بٹ گئی
تفصیل میں نہ جا کہ پیمبر تو میں نہ تھا
مضطرؔ مری قمیص تھی اک روز پھٹ گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.