یوں قتل عام نوع بشر کر دیا گیا
یوں قتل عام نوع بشر کر دیا گیا
راسخ طبیعتوں ہی میں ڈر کر دیا گیا
تاریخ سرخ رو ہے انہیں حادثات سے
جن حادثوں سے قطع نظر کر دیا گیا
اس ڈر سے جاگ اٹھے نہ کہیں راستے کی چاپ
کچھ قافلوں کو شہر بدر کر دیا گیا
سر دوش پر رہا نہ رہا لیکن آخرش
یہ معرکۂ سخت بھی سر کر دیا گیا
مقصود تو تھا حسن طلوع و غروب کا
پردہ میان شام و سحر کر دیا گیا
الفاظ دل کی آگ سے محروم ہو گئے
جب شاعری کو صرف ہنر کر دیا گیا
کچھ پتھروں میں قید رہے عمر بھر ضمیرؔ
تھی قبر اصل میں جسے گھر کر دیا گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.