یوں ساری عمر زیست کے درماں میں رہ گئے
یوں ساری عمر زیست کے درماں میں رہ گئے
دامن سلا تو چاک گریباں میں رہ گئے
تحریر کر سکے نہ سفر نامۂ حیات
ہر موڑ پر تعین عنواں میں رہ گئے
منزل کو کچھ نہ راہ کی سوغات دے سکے
جو آبلے تھے خار مغیلاں میں رہ گئے
کانٹے چبھن ملال تھکن اور بے کسی
کیا کیا تھے ہم سفر جو بیاباں میں رہ گئے
کب موسم بہار گیا کچھ پتہ نہیں
ایسا الجھ کے جیب و گریباں میں رہ گئے
الزام یہ بجا ہے ترا اے خیال دوست
ہم دل نوازیٔ غم دوراں میں رہ گئے
شانہ کشوں نے دل کو بھی شانہ بنا دیا
خم پھر بھی کتنے گیسوئے دوراں میں رہ گئے
اک ایک کر کے داغ جگر دے رہے تھے لو
یوں ساری رات جشن چراغاں میں رہ گئے
رندوں نے اپنے خون سے مقتل سجا دئے
واعظ سرور بادۂ عرفاں میں رہ گئے
ہم کو تو زندگی تہ خنجر ہی مل گئی
سب جستجوئے چشمۂ حیواں میں رہ گئے
ناطقؔ کہاں ہے صفحۂ قرطاس کو خبر
کتنے خیال ذہن کے زنداں میں رہ گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.