یوں سمایا ہے کہ اب سر سے نکلنے کا نہیں
یوں سمایا ہے کہ اب سر سے نکلنے کا نہیں
میں جو چاہوں بھی تو اک ڈر سے نکلنے کا نہیں
میں نے جو خوف پرویا تھا رگوں میں اپنی
ایسا بیٹھا ہے کہ اندر سے نکلنے کا نہیں
بعد کوشش کے نتیجہ یہ نکالا میں نے
زندگی میں ترے چکر سے نکلنے کا نہیں
کھینچ لاتے ہیں حقیقت میں حوادث ورنہ
آدمی خواب کے محور سے نکلنے کا نہیں
سر پٹختا نہیں پنجرے میں پرندہ یوں ہی
شوق پرواز کبھی پر سے نکلنے کا نہیں
اک سڑک اور مرا آٹھواں دسواں چکر
اور مجھے علم ہے وہ گھر سے نکلنے کا نہیں
اپنے اندر یوں چھپائے ہیں صنم پتھر نے
بت کوئی تیشۂ آذر سے نکلنے کا نہیں
غم دوراں بھی ہے یوں جیسے مرا یوم حساب
میں تو دنیا میں بھی محشر سے نکلنے کا نہیں
دھونس دیتا ہے یہ سورج مجھے ہر شام حسنؔ
وہ جو ڈوبا تو سمندر سے نکلنے کا نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.