یوں سبک دوش ہوں جینے کا بھی الزام نہیں
آہ اتنی بڑی دنیا میں کوئی کام نہیں
میری تحقیق مرا حسن نظر عام نہیں
کوئی عالم ہو مرے آئنہ میں شام نہیں
اوس دامن پہ ہے آنکھوں میں نمی کی جھلکی
صبح ہونے پہ بھی آسودگئ شام نہیں
مست ہوں نشۂ پرواز میں اب ہوش کہاں
ہم نوا دیکھ مرا رخ تو سوئے دام نہیں
ماتم اب خاک کروں بے سر و سامانی کا
اک دیا آج میسر ہے تو اب شام نہیں
نشۂ ہوش پہ تھی کم نظری کی تہمت
کھل گئی آنکھ تو اب کوئی سر بام نہیں
یاد ہیں چشم نوازش کے وہ پیہم نشتر
اب تو بیگانہ نگاہی کا بھی پیغام نہیں
کوئی سرخی ہو تو افسانہ سمجھ میں آئے
ہائے وہ دل کی خلش جس کا کوئی نام نہیں
غسل توبہ کے لئے بھی نہیں ملتی ہے شراب
اب ہمیں پیاس لگی ہے تو کوئی جام نہیں
پھر اجالا ہی اجالا نظر آتا ہے سراجؔ
دل ہو بیدار تو دنیا میں کبھی شام نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.