یوں تری چاپ سے تحریک سفر ٹوٹتی ہے
یوں تری چاپ سے تحریک سفر ٹوٹتی ہے
جیسے پلکوں کے جھپکنے سے نظر ٹوٹتی ہے
بوجھ اشکوں کا اٹھا لیتی ہیں پلکیں میری
پھول کے وزن سے کب شاخ شجر ٹوٹتی ہے
زندگی جسم کے زنداں میں یہ سانسوں کی صلیب
ہم سے توڑی نہیں جاتی ہے مگر ٹوٹتی ہے
کوئی جگنو کوئی تارہ نہیں لگتا روشن
ظلمت شب میں جب امید سحر ٹوٹتی ہے
کتنے اندیشوں کی کرچیں سی بکھر جاتی ہیں
ایک چوڑی بھی کلائی سے اگر ٹوٹتی ہے
اب سوا نیزے پہ سورج نہیں آتا ہے سلیمؔ
اب قیامت بھی بہ انداز دگر ٹوٹتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.