یوں تو بہت مکاں ہیں مگر گھر نہیں رہے
یوں تو بہت مکاں ہیں مگر گھر نہیں رہے
یعنی ہمارے گاؤں میں چھپر نہیں رہے
کچھ شہر والے گاؤں مرے آئے نہ کبھی
آئے بھی مشکلوں سے تو شب بھر نہیں رہے
فرقت میں اب کسی کی بھی روتے نہیں ہیں لوگ
آنکھوں میں اب کسی کے سمندر نہیں رہے
انگلی پکڑ کے چل رہیں تنہائیاں مری
راہیں ابھی بھی ساتھ ہیں رہبر نہیں رہے
یوں تو ہمارے گھر میں ہر اک چیز ہے مگر
وہ ماں کے ہاتھ کے بنے بستر نہیں رہے
مدت سے جنگلوں میں نہ دیکھا گیا وہ قیس
وہ اس لیے کہ اب وہاں تیتر نہیں رہے
سارے رواج و رسم ترقی میں کھو گئے
بچھتے تھے جو زمیں پہ وہ لنگر نہیں رہے
شیشے کی طرح صاف تھے کچھ دشمنوں کے دل
ان آستینوں میں کبھی خنجر نہیں رہے
دنیا کے رنج نے یوں انہیں موم کر دیا
پتھر مزاج شخص بھی پتھر نہیں رہے
ان کی انا و فخر کا اب کیا کریں گلہ
ہم بھی تو اپنے آپ میں اکثر نہیں رہے
ان میں بھی اب وہ عالی سماعت کہاں رہی
اور ہم بھی پہلے جیسے سخنور نہیں رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.