یوں تو ہر ایک شخص ہی طالب ثمر کا ہے
یوں تو ہر ایک شخص ہی طالب ثمر کا ہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ جسے غم شجر کا ہے
یہ کیسا کارواں ہے کہ ایک ایک گام پر
سب سوچتے ہیں کیا کوئی موقع سفر کا ہے
یہ کیسا آسماں ہے کہ جس کی فضاؤں میں
ایک خوف سا شکستگیٔ بال و پر کا ہے
یہ کیسا گھر ہے جس کے مکینوں کو ہر گھڑی
دھڑکا سا ایک لرزش دیوار و در کا ہے
آنکھوں پہ تیرگی کا تسلط ہے اس قدر
کرنوں پہ احتمال فریب نظر کا ہے
چہرے کا کوئی داغ دکھائی نہ دے مجھے
یہ معجزہ عجب مرے آئینہ گر کا ہے
تھا میر جیؔ کا دور غنیمت کہ ان دنوں
دستار ہی کا ڈر تھا مگر اب تو سر کا ہے
یہ سارے سلسلے تھے جب آنکھوں میں نور تھا
اب کس کا انتظار کسی دیدہ ور کا ہے
غالب ہے اب بلند صدا ہی دلیل پر
صادقؔ ہمارا دور عجیب شور و شر کا ہے
- کتاب : Pakistani Adab (Pg. 572)
- Author : Dr. Rashid Amjad
- مطبع : Pakistan Academy of Letters, Islambad, Pakistan (2009)
- اشاعت : 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.