یوں تو کہنے کے لیے صبح کے آثار بھی تھے
یوں تو کہنے کے لیے صبح کے آثار بھی تھے
میں رہا چپ کہ مرے سامنے کہسار بھی تھے
خوف سے چیخنے والوں میں اکیلا میں تھا
لوگ سہمے ہوئے لیکن پس دیوار بھی تھے
تیز آندھی میں فقط ہم گرے ایسا تو نہیں
دور تک راہ میں اکھڑے ہوئے اشجار بھی تھے
عمر بھر جس کی طلب نے رکھا محصور ہمیں
ہم ہی اس شہر طلسمات کے معمار بھی تھے
تھا ہمیں سے کبھی تہذیب و تمدن کا وقار
ہم کبھی شاخ گل تر کبھی تلوار بھی تھے
- کتاب : سکوت دشت (Pg. 49)
- Author : اقبال انجم
- مطبع : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی۔6 (2019)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.