یوں تو میری ذات ہر پل در بدر ہوتی رہی
یوں تو میری ذات ہر پل در بدر ہوتی رہی
آنکھ لیکن صحن حسن یار پر رکھی رہی
بعد تیرے خواب بھی سب برہنہ ہوتے رہے
اور ان نیندوں کی بھی عصمت دری ہوتی رہی
اک دو راہے پر کھڑے دو سائے لہراتے رہے
دور جنگل میں کہیں اک بانسری بجتی رہی
دیر پا کیا نقش ہو جب شہ رگ کونین پر
ایک شمشیر تغیر ہر گھڑی لٹکی رہی
آج بھی سارے ستارے انگلیوں پر گن لیے
آج کے بھی رت جگے کی نوکری اچھی رہی
بے ثباتیٔ جہاں اور رائیگانیٔ حیات
ایک بہلاتی رہی اور ایک بہکاتی رہی
ہجر کسب ذات کا معجز نما ہوتا رہا
اور ہم کو رفتہ رفتہ اپنی یاد آتی رہی
میں چراغ بے خطر ہر دور میں روشن رہا
مجھ سے نسبت آندھیوں کی صرف فریادی رہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.