یوں تم نے جو ہنس کر مجھے دیکھا نہیں ہوتا
یوں تم نے جو ہنس کر مجھے دیکھا نہیں ہوتا
میں نے بھی قدم اپنا بڑھایا نہیں ہوتا
وہ حسن کا قصہ نہ اداؤں کی کہانی
معصوم کوئی شہر میں رسوا نہیں ہوتا
یہ پھول بھی خوش رنگ کہاں ہوتے نظر میں
گلشن سے کبھی یار جو گزرا نہیں ہوتا
نیندیں نہ کبھی آنکھ سے یوں روٹھ کے جاتیں
آنکھوں میں کوئی خواب سمایا نہیں ہوتا
پھر لذت گریہ سے کہاں ہوتا تعارف
پھر وسعت صحرا کو بھی سوچا نہیں ہوتا
ہرگز نہ سلگتا خس و خاشاک کا جنگل
شعلہ جو ترے لمس کا پایا نہیں ہوتا
بارش نے کبھی آگ لگائی نہیں ہوتی
خواہش نے کبھی ہم کو بھگویا نہیں ہوتا
یہ رنگ کہاں ہوتا نعیمؔ اپنی غزل میں
گر آج رواں یاد کا دریا نہیں ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.