یوں وفا آزمائی جاتی ہے
یوں وفا آزمائی جاتی ہے
دل کی رگ رگ دکھائی جاتی ہے
اپنی صورت کے آئنے میں مجھے
میری صورت دکھائی جاتی ہے
ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے
نئی دنیا بنائی جاتی ہے
نہ بنے بات کچھ تو ہنس دینا
بات یوں بھی بنائی جاتی ہے
جلنے والا جلے دھواں بھی نہ ہو
آگ یوں بھی لگائی جاتی ہے
جانے والے تجھے خبر بھی ہے
اک قیامت سی آئی جاتی ہے
چشم امید تجھ کو اس کی شکل
دور سے پھر دکھائی جاتی ہے
دل کی چھوٹی سی اک کہانی تھی
ختم پر وہ بھی آئی جاتی ہے
وہ جو چمکا تھا اک ستارا سا
اک گھٹا اس پہ چھائی جاتی ہے
دل پہ ابھری تھی وہ جو اک تصویر
کتنی جلدی مٹائی جاتی ہے
لو لگائی تھی شمع محفل سے
وہ بھی اب جھلملائی جاتی ہے
دوسروں سے رضاؔ کسی کی یاد
کس طرح سے بھلائی جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.