یوں وہ میری وفا آزماتا رہا
یوں وہ میری وفا آزماتا رہا
دور ہوتا رہا پاس آتا رہا
میں نے حالات سے ہار مانی نہیں
برق گرتی رہی گھر بناتا رہا
لے رہا تھا مرے صبر کا امتحاں
وہ خدا تھا مجھے آزماتا رہا
میں نہ جانوں کہاں راستہ ختم ہو
مجھ کو چلنا پڑا وہ چلاتا رہا
خواب بنتی رہی زندگی اور میں
آئنہ زندگی کو دکھاتا رہا
لوگ کہتے ہیں میں ثانیٔ میرؔ ہوں
جو ہنسا بھی تو سب کو رلاتا رہا
کون تھا جس نے بخشی غزل کو ضیا
لب پہ جاویدؔ کا نام آتا رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.