یوں زندگی کی جنگ کو لڑتا رہا چراغ
یوں زندگی کی جنگ کو لڑتا رہا چراغ
آنکھوں میں رات بھر بجھا بجھ کر جلا چراغ
میری یہ جان لے کے ملے گا تجھے بھی کیا
ہر پل ہوا سے کہتا تھا بجھتا ہوا چراغ
شاید نشان ہے یہ محبت کا آخری
میرے مزار جان پہ ٹوٹا پڑا چراغ
ورنہ یہ کھارا پانی کسی کام کا نہ تھا
پھر اس نے میری آنکھ میں آ کر رکھا چراغ
میں نے چھپایا بھید یہ دل کا عجب طرح
چہرہ جلا جو غم سے تو اس کو کہا چراغ
بخشی ہے بے رخی نے کرامت عجیب تر
جلنے لگے تھے لفظ جو میں نے لکھا چراغ
اتری جو ہجر رات تو روشن ہوا میں یوں
سینے میں تیری یاد کا جلنے لگا چراغ
یادوں کا کاروان یوں روشن ہے آس پاس
جب بھی بجھا ہے ایک جلا ہے نیا چراغ
جاتے ہوئے تو رات سسکتی ہوئی گئی
ٹھنڈی ہوا نے ایسے تھا گھائل کیا چراغ
ویسے تو دل کی آگ سے روشن وجود تھا
آنکھوں میں جل سکا نہیں دیدار کا چراغ
یوں تو دھنک کے رنگ بھی خوبی میں کم نہیں
لیکن کہاں ہے کوئی ترے حسن سا چراغ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.