یوں ہی پہچان کے سارے حوالے ٹوٹ جاتے ہیں
یوں ہی پہچان کے سارے حوالے ٹوٹ جاتے ہیں
جو بندھن کچے ہوتے ہیں وہ سارے ٹوٹ جاتے ہیں
نسب کے خون کے منصب کے تم لاکھوں سہارے دو
نہ ہوں جذبوں پہ جو قائم وہ رشتے ٹوٹ جاتے ہیں
مری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا جھوٹ بولو گے
کبھی کیا تم نے سوچا ہے کہ لہجے ٹوٹ جاتے ہیں
امیر شہر کے بچے کی اک نظر حقارت سے
مرے بچے کے ماٹی کے کھلونے ٹوٹ جاتے ہیں
صدفؔ بے بس ہے کملی میں اسے اپنی اماں دیجے
مرے آقا زمانے کے تو وعدے ٹوٹ جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.