زاہد کو اپنے زہد پہ کس درجہ ناز ہے
زاہد کو اپنے زہد پہ کس درجہ ناز ہے
اس نے سنا نہیں کہ خدا بے نیاز ہے
تم شمع رو ہو میں تو مجسم ہوں ایک شمع
رگ رگ میں میری حالت سوز و گداز ہے
اے چارہ ساز پہلے نکال اس کو کھینچ کر
اک تیر سینہ میں نفس جاں گداز ہے
خدمت کو میری آج بھی حاضر ہے آسماں
وہ اس کو کیا کرے کہ مجھے احتراز ہے
زاہد مئے طہور بھی آخر شراب ہے
مجھ کو تو منع کرتا ہے تو کب مجاز ہے
پہلے گناہ گار ہی پہنچے بہشت میں
وہ تو بڑا کریم بڑا بے نیاز ہے
للہ اے ہجوم تمنا ذرا ٹھہر
یہ وقت رخصت نفس جاں گداز ہے
روز قیامت آج تو واعظ دھرا نہیں
اک عمر چاہئے اسے مدت دراز ہے
غربت میں مجھ سے پوچھتی ہے میری بیکسی
یاں اے غریب کون ترا چارہ ساز ہے
اے ہم رہاں بڑھائے ہوئے اب قدم چلو
دن مختصر ہے اور مسافت دراز ہے
سوتا بنا ہے ناز سے کوئی شب وصال
ہاں واقعی یہ خواب ہے یہ خواب ناز ہے
اے دل نہ کر ہر ایک سے تو شکوۂ رقیب
کمبخت اس میں تیرا ہی افشائے راز ہے
آخر مسیح نے بھی لیا اپنا ہاتھ کھینچ
پروردگار تو ہی بس اب چارہ ساز ہے
تم اور تم سے میل کرے کوئی پاکباز
اچھی کہی کہ غیر بڑا پاکباز ہے
طرز ستم کچھ اور اب ایجاد کیجیے
ترچھی نظر تو ایک پسندیدہ ناز ہے
نادرؔ نکل گیا ہے اگر کوئی شعر گرم
سینہ کا سوز ہے مرے دل کا گداز ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.