ظاہر مسافروں کا ہنر ہو نہیں رہا
ظاہر مسافروں کا ہنر ہو نہیں رہا
چل بھی رہے ہیں اور سفر ہو نہیں رہا
کیا حشر ہے کہ بارش نیساں کے باوجود
پیدا کسی صدف میں گہر ہو نہیں رہا
صبح وصال کب سے نمودار ہو چکی
ناپید شام ہجر کا ڈر ہو نہیں رہا
قائل تمام شہر ترے اعتبار کا
ہونا تو چاہئے تھا مگر ہو نہیں رہا
بیٹھے ہوئے ہیں دیر سے شاطر بساط پر
مہرہ کوئی ادھر سے ادھر ہو نہیں رہا
لگتا ہے یوں قیام ہے اپنا سرائے میں
ہم جس مکان میں ہیں وہ گھر ہو نہیں رہا
مردہ ہوئے ہیں لفظ کہ پتھر سماعتیں
خامی کہیں تو ہے کہ اثر ہو نہیں رہا
گلزارؔ سب نے پیڑ کو سینچا ہے خون سے
تقسیم ہر کسی پہ ثمر ہو نہیں رہا
- کتاب : Urdu Adab (Pg. 57)
- Author : Iqbal Hussain
- مطبع : Iqbal Hussain Publishers (Jan, Feb. Mar 1996)
- اشاعت : Jan, Feb. Mar 1996
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.