ظاہراً نقطہ ہوں اک سمٹا ہوا
ظاہراً نقطہ ہوں اک سمٹا ہوا
غور سے دیکھو تو ہوں بکھرا ہوا
اس قدر مایوس ہوں چہروں سے میں
اپنا چہرہ بھی لگے بدلا ہوا
ڈر رہا ہوں ہو نہ جائے پاش پاش
آدمی اب کانچ کا پتلا ہوا
ذہن میں کچھ دن سے ہے کوئی خیال
ایک کانٹے کی طرح چبھتا ہوا
اپنے چہرے پر بھروسہ ہو جسے
آئنے سے کیوں پھرے چھپتا ہوا
تیرگی کا خوف اب تک ہے محیط
یہ اجالا جیسے ہو مانگا ہوا
جانے کیوں یہ سوچتا رہتا ہوں میں
کل کو یہ سورج اگر اندھا ہوا
سوچنے میں اجنبی میرے لیے
دیکھنے میں وہ لگے دیکھا ہوا
ہم تو اے منظورؔ تنہا ہو گئے
خون پانی سے بھی کچھ پتلا ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.