زباں رکھتے ہیں مینا کی مگر طوطے کا قصہ ہے
زباں رکھتے ہیں مینا کی مگر طوطے کا قصہ ہے
ذرا سی بات میں آنکھیں بدل لینے کا قصہ ہے
سنا ہے لاٹھیوں سے پھٹ گیا دریا کا پانی بھی
ہمارے خوبصورت گھر کے بٹوارے کا قصہ ہے
بکا ہے کوڑیوں کے مول مجبوری میں ہیرا بھی
ابھی پچھلے برس بیساکھ کے میلے کا قصہ ہے
غریبی کے بڑھاپے سے خدا محفوظ ہی رکھے
کسی بیٹی کی باتیں ہیں کسی بیٹے کا قصہ ہے
کھلے چہروں کے سائے میں گزارو بھی کوئی لمحہ
وہی بے چہرگی کا غم وہی چہرے کا قصہ ہے
وہ پتھر کھاتے جاتے تھے دعائیں دیتے جاتے تھے
مگر بھائی یہ چودہ سو برس پہلے کا قصہ ہے
مری نکتہ رسی بھی میرے یاروں کو کھٹکتی ہے
کہ میرے شعر کی گرمی سے جل جانے کا قصہ ہے
وہ جس کے دم سے زندہ ہیں ہمارے شہر کے فتنے
زبانوں پر اسی معصوم کے بچے کا قصہ ہے
خیال آئے بھی کیسے اے رئیسؔ اس کی عبادت کا
یہاں مندر کے جھگڑے ہیں وہاں کعبے کا قصہ ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.