زباں سے میری نام ان کا نکل جاتا تو کیا ہوتا
زباں سے میری نام ان کا نکل جاتا تو کیا ہوتا
گلوں کا دل خزاؤں سے بہل جاتا تو کیا ہوتا
مرا دل سوچتا رہتا ہے تنہائی میں یہ اکثر
کہ یہ سانسوں کی گرمی سے پگھل جاتا تو کیا ہوتا
کڑکتی بجلیوں کا ایک دن احسان لینا تھا
نشیمن برق سے پہلے ہی جل جاتا تو کیا ہوتا
وہ مہتابی اجالوں کو لئے پھرتے ہیں ساتھ اپنے
اندھیری رات میں سورج نکل جاتا تو کیا ہوتا
مرے خون جگر سے تو نے ساغر بھر دئے ساقی
اگر اس آگ سے ماحول جل جاتا تو کیا ہوتا
ہزاروں زخم ہنستے ہنستے تیرے سہہ لیے میں نے
تری آغوش میں اک زخم پل جاتا تو کیا ہوتا
بہار آنے کو ہے پت جھڑ کا موسم دور ہے یارو
خدا کا خوف بھی دل سے نکل جاتا تو کیا ہوتا
حرم میں دیکھ کر خوش ہیں شفقؔ احباب سب میرے
اگر دہلیز پر ہی دم نکل جاتا تو کیا ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.