زبانیں زہر اگلیں اور قلم ترشول ہو جائیں
زبانیں زہر اگلیں اور قلم ترشول ہو جائیں
پھر اس آب و ہوا میں کس طرح ہم پھول ہو جائیں
بھنویں تلوار میں پلکیں بدل جائیں گی خنجر میں
یہ سطریں ما بدولت کو اگر موصول ہو جائیں
بھلا کیا فائدہ ایسے خداؤں کی پرستش کا
جنہیں یہ بھی نہیں معلوم کب معزول ہو جائیں
ہے مجبوری وہ پھولوں کو کہیں کانٹے بغیر اس کے
نہیں ممکن کہ دشت خار میں مقبول ہو جائیں
یہ تیری ناز برداری نہ ہم سے ہوگی اے دنیا
نہیں وہ ہم جو کوچے میں کسی کے دھول ہو جائیں
نظر آئیں تمہاری طرح ہر اک روز منظر پر
ذرا سا ہم بھی اے پیارے جو نامعقول ہو جائیں
پتے کی بات کہہ دوں یہ فقیروں کی ادائیں ہیں
کبھی معروف ہو جائیں کبھی مجہول ہو جائیں
نظیرؔ ایسے میں اب کوئی گواہی کیسے ممکن ہو
جو قاتل کو کہیں قاتل وہی مقتول ہو جائیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.