ضبط بھی چاہئے ظرف بھی چاہئے اور محتاط پاس وفا چاہئے
ضبط بھی چاہئے ظرف بھی چاہئے اور محتاط پاس وفا چاہئے
زندگی دشمنوں میں بھی مشکل نہیں آدمی میں ذرا حوصلہ چاہئے
ہم کو منزل شناسی پہ بھی ناز ہے اور ہم آشنائے حوادث بھی ہیں
جوئے خوں سے گزرنا پڑے بھی تو کیا جستجو کو تو اک راستا چاہئے
اپنے ماتھے پہ بل ڈال کر ہمیں شیش محلوں کے اندر سے جھڑکی نہ دو
ہم بھکاری نہیں ہیں کہ ٹل جائیں گے ہم کو اپنی وفا کا صلہ چاہئے
تم نے آرائش گلستاں کے لئے ہم سے کچھ خون مانگا تھا مدت ہوئی
تم سے خیرات تو ہم نہیں مانگتے ہم کو اس خون کا خوں بہا چاہئے
ہم کو ہر موڑ پر دوست ملتے رہے ہم کبھی راہ منزل میں تنہا نہ تھے
کل غم دوست تھا اب غم زیست ہے آشنا کو تو اک آشنا چاہئے
میری مانو تو اک بات تم سے کہوں یہ نیا دور ہے اس کا کیا ٹھیک ہے
دوستوں سے ملو محفلوں میں مگر آستینوں کا بھی جائزہ چاہئے
حد سے بڑھ کر محبت مناسب نہیں اس میں اندیشۂ بد گمانی بھی ہے
دشمنوں سے تعلق تو ہے ہی غلط دوستوں میں بھی کچھ فاصلہ چاہئے
جرم بے باک گوئی کی پاداش میں زہر اقبالؔ کو تلخیوں کا ملا
اس نے اس زہر کو ہی سخن کر لیا اس زمانے میں اب اور کیا چاہئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.