زہے قسمت کہ قاصد یار کا لے کر پیام آیا
زہے قسمت کہ قاصد یار کا لے کر پیام آیا
مگر افسوس صد افسوس وقت اختتام آیا
کرامت دیکھیے ساقی کی مستانہ نگاہوں کی
کہ جس دم اٹھ گئیں رندوں تلک خود چل کے جام آیا
حسد سے ہاتھ مل کر رہ گئے سارے رقیب اس دم
زباں پر جب کسی کی اتفاقاً میرا نام آیا
ترس آتا ہے اس کی بے بسی پر خود گلستاں کو
جو طائر فصل گل کے آتے آتے زیر دام آیا
کرو گے یاد جب دنیا سے ہم ہو جائیں گے رخصت
کہو گے تب یہی تو تھا جو ہر مشکل میں کام آیا
خطا کی ہو کسی نے انگلیاں میری ہی سمت اٹھیں
کسی کا جرم ہو سر پر مرے ہی اتہام آیا
ادھورا پن ازل سے تھا لکھا شاید مقدر میں
کہ خوشیاں کیا مرے حصے میں غم بھی ناتمام آیا
برا جب وقت آیا سب نے یاسرؔ راہ لی اپنی
نہ کوئی چارہ گر ٹھہرا نہ کوئی یار کام آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.