زخم تنہائی ملا عشق میں رسوائی بھی
زخم تنہائی ملا عشق میں رسوائی بھی
پھر بھی کچھ کم نہ ہوئی عشق کی گہرائی بھی
آج ہنس ہنس کے جو غیروں سے ملا کرتا ہے
تھا وہی شخص کبھی میرا ہی شیدائی بھی
جام آنکھوں کے وہ ہونٹوں کی گلابی کلیاں
اور یاد آتی ہے اس کی مجھے انگڑائی بھی
بد گماں جس سے کیا کرتا ہے اکثر مجھ کو
ہے اسی چاند کا وہ شخص تمنائی بھی
پھر سے دستک در دل پر یہ بھلا کون آیا
نہیں تصویر تو پہلی ابھی دھندلائی بھی
میری عادت ہے کہ ہر اک سے ملا کرتا ہوں
یوں ضروری تو نہیں سب سے شناسائی بھی
جس سے لگتا تھا بہت ڈر مجھے پہلے ارشدؔ
راس آتی ہے مجھے اب وہی تنہائی بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.