زخم ہی زخم ہیں دل پر کبھی ایسا تو نہ تھا
زخم ہی زخم ہیں دل پر کبھی ایسا تو نہ تھا
کرم یار کا نشتر کبھی ایسا تو نہ تھا
پھول جو مجھ کو دئے بن گئے وہ انگارے
وقت عیار و ستم گر کبھی ایسا تو نہ تھا
بستیاں راز کی اشکوں میں بہی جاتی ہیں
موجزن غم کا سمندر کبھی ایسا تو نہ تھا
آج دست طلب اٹھے تو قلم ہو جائے
دور محرومیٔ ساغر کبھی ایسا تو نہ تھا
آنے والے نہیں جب وہ تو یہ رونق کیسی
آج جیسا ہے مرا گھر کبھی ایسا تو نہ تھا
چھن گئی ہو نہ تجلی کہیں دیواروں سے
شور میخانے کے باہر کبھی ایسا تو نہ تھا
پاؤں رکھا تھا جہاں سرو میں خم ہے اب تک
جادۂ عشق میں پتھر کبھی ایسا تو نہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.