زخم پر زخم محبان ستم دیتے گئے
زخم پر زخم محبان ستم دیتے گئے
تہ بہ تہ جم گئے غم پھر بھی وہ غم دیتے گئے
ہم انہیں کشف کی صورت نظر آئے ہر وقت
وہ مگر ہم کو فقط خواب عدم دیتے گئے
گل تھے مقصود ہمارا تھا ثمر ہو جانا
توڑ کر شاخ سے کیوں رنج و الم دیتے گئے
اہل باطل کی یہ سازش تھی کہ مفلوج ہو فکر
نام لے لے کے حقیقت کا بھرم دیتے گئے
اہل قوت کے اشاروں پہ قلم چلتا گیا
وہ عوض میں اسے اک خاص رقم دیتے گئے
لگتا ہے رک سی گئی ولیوں کی افزائش نسل
اور شیطانوں کو شیطان جنم دیتے گئے
ٹھہرے محبوب انہیں ٹھگنے کا حق تھا جاویدؔ
حکم دیتے رہے جس چیز کا ہم دیتے گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.