زخم راضی رہے نشتر کی پذیرائی کو
زخم راضی رہے نشتر کی پذیرائی کو
آپ آئے ہی نہیں کار مسیحائی کو
فہم ہستی نہ کہیں وہم و گماں ہو جائے
رخ سے پردہ جو اٹھا دیں وہ شناسائی کو
ہوشمندی کا تقاضا ہے تو پھر یوں کیجے
آپ آنکھوں سے چرا لیجیے بینائی کو
تجھ پہ تف ہے کہ تجھے حسن کا عرفان نہیں
تو نے آوارہ سمجھ رکھا ہے لیلائی کو
سوزن و خار سے وابستہ ہے ہر ریشۂ دل
عشق اک سرخ قبا مانگے ہے زیبائی کو
دامن خار سے لپٹی ہیں ہزاروں کلیاں
کچھ تحفظ بھی یہاں چاہیے رعنائی کو
سلوٹوں سے مرے بستر کی عیاں ہو جاتی
ٹوٹنے دیتے اگر خواب میں انگڑائی کو
ساتھ کھیلی تھی کبھی آنکھ مچولی ہم نے
آج بھی ڈھونڈ رہے ہیں اسی انگنائی کو
اپنی صورت میں چھپا رکھی ہے مخفیؔ صورت
آئنہ قید کیے بیٹھا ہے ہرجائی کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.