زخم سے خوف ہمیں مثل گہر کچھ بھی نہیں
زخم سے خوف ہمیں مثل گہر کچھ بھی نہیں
مرزا قادر بخش صابر دہلوی
MORE BYمرزا قادر بخش صابر دہلوی
زخم سے خوف ہمیں مثل گہر کچھ بھی نہیں
خواہش چارۂ ناسور جگر کچھ بھی نہیں
اتنی مدت سے نکالا ہے کہ مانند عدم
کوئی پوچھے تو مجھے یاد وہ گھر کچھ بھی نہیں
دئے اس ہستئ موہوم نے کیا کیا دھوکے
گو کہ ظاہر میں یہ سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں
صرف کی عمر عبث شغل دعا میں ہم نے
کہ سمجھتے تھے کوئی شے ہے اثر کچھ بھی نہیں
کیجے کشتہ مجھے کام آؤں گا مثل سیماب
آپ کا فائدہ ہے اس میں ضرر کچھ بھی نہیں
صبح پیری ہوئی اور کوچ کا وقت آ پہنچا
حیف ہے پاس مرے زاد سفر کچھ بھی نہیں
بحر رحمت پہ خدا کے نہیں زاہد کو نظر
سامنے اس کے مرا دامن تر کچھ بھی نہیں
کیوں مری قتل پہ باندھا اسے کھولو صاحب
میں گنہ گار ہوں اور جرم کمر کچھ بھی نہیں
بد گمانی نے یہاں وہم لگائے کیا کیا
واں ستانے کے سوا مد نظر کچھ بھی نہیں
ہے شب وصل مئے وصل پیو تم بے خوف
آنکھ کیوں آپ کی ہے جانب در کچھ بھی نہیں
درہم داغ بھی گردوں نے دئے پر صابرؔ
اس میں ہوتی مری اوقات بسر کچھ بھی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.